01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 1
آں چست
از روز میری
قسط نمبر1
"ماما میں آپکی کچھ ہیلپ کر دوں؟؟"۔ عمارہ بیگم کچن میں کھانا بنا رہیں تھیں جب مشائم کچن میں داخل ہو کر کہنے لگی۔
"نہیں مشی کوئی کام نہیں ہے"۔ عمارہ بیگم نے پرمسرت انداز میں کہا۔
"اچھا' چلیں پھر میں پیٹ پوجا ہی کر لیتی ہوں"۔ بولتے ہی اسنے سائیڈ پہ رکھے ٹیبل کی چیئر گھسیٹی اور اس پہ بیٹھتے ٹیبل پہ پڑی فروٹ باسکٹ سے چھری اٹھاتے فروٹس کو پلیٹ میں کاٹنا شروع کیا۔
"ویسے میں نے کیا تو غلط ہے"۔ مشائم خود سے لگی تھی جب عمارہ بیگم نے اسے مخاطب کیا۔
"کیا غلط کیا ہے؟؟"۔
"ک۔ ک۔ کچھ نہیں ماما' میں تو بس ایسے ہی بول رہی تھی"۔ مشائم نے ادل بدل سے کام لیا۔
"احد میرا ویٹ کر رہا ہو گا۔۔ لیکن میں نے اسے میسج بھی تو جان کے کیا تھا"۔ سوچ کی گھاٹی میں خیال کے گھوڑے دوڑاتی وہ کہیں دور نکل گئی تھی۔
اسے اس بات کا علم ہی نا ہو سکا کہ کب وہ فروٹس کے ساتھ اپنا ہاتھ بھی کاٹ چکی ہے۔
ہاتھ سے خون رستے فروٹس سے مخلوط ہوتے پلیٹ میں گرنے لگا تھا۔
"مشی کہاں دھیان ہے تمھارا؟"۔ عمارہ بیگم ہڑبڑاہٹ میں مشائم کی طرف آئیں۔
"احد کے بارے میں سوچ رہی تھی ماما اور یہ سب ہو گیا"۔ مشائم نے بالک پن کا مظاہرہ کیا۔
"رکو میں فرسٹ ایڈ باکس لے کر آتی ہوں"۔ بولتے ہی وہ کچن سے نکل گئیں تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"میم مشائم آپ ہر دفعہ دیر سے آتی ہیں اور مجھے آپکی وجہ سے اتنا انتظار کرنا پڑتا ہے"۔ سنسان جھیل کے کنارے بیٹھے اسنے قریب سے پتھر اٹھایا اور پوری قوت سے جھیل میں پھینکا جسکے گرتے ہی "ڈبک" کی آواز کیساتھ بھنور بھی بنے تھے۔
اسکی بائیں جانب ایک درخت تھا' عمر رسیدہ درخت جس پہ شاخوں اور پتوں کا بوجھ اسکی بساط سے زیادہ تھا۔ شاخوں اور پتوں میں لت پت وہ جھکا ہوا تھا' جھکنے کے باعث اسکی کچھ شاخیں جھیل پہ گری ہوئیں تھیں جس سے جھیل کے پانی پہ سایہ سا اترا تھا۔ شام کا وقت تھا، سورج ڈھل کر کچھ ہی دیر میں اہل زمین پہ اندھیرے کے راج کا پیغام دے رہا تھا۔
ٹھنڈی ہوا آئیں شائیں کرتی تیزی سے اسکے وجود سے ٹکرا کے واپس چلی جاتی' ہوا کی رت پہ اسکے بال بھی لہرا رہے تھے۔
"ریہرسل ہی کر لیتا ہوں"۔
بولتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا اور پینٹ جھاڑتے کار کی طرف قدم اٹھانے لگا' جو سڑک کے کنارے تھوڑا فاصلے پہ کھڑی تھی۔
کار سے گیٹار نکالتے وہ واپس آیا اور بیٹھ کر گیٹار اپنے سامنے رکھ کر گلا کھنکھارنے لگا۔
"رہنڑاں تو پل پل دل کے پاس
جڑی رہے تجھ سے ہر اک سانس"
گیٹار کے تار چھیڑتے اسنے تان اٹھائی تھی۔
جونہی اسنے گنگنانا شروع کیا ہوا کی ایک تیز لہر اسکے کانوں کے پاس دوڑ گئی جیسے کسی کی خاموش دستک کا پیام لائی ہو۔
"نال تیرے اک گھر میں سوچاں
باری کھولاں تے چن دکھ جاوے
اکھاں تے بیتنڑ راتاں ساریاں
جے اکھ لاگے تے من نا لاگے"
اسکی انگلیاں مستقل گیٹار پہ چلت پھرت کر رہی تھیں اور آواز ہوا میں سر کی لپیٹ میں جھوم رہی تھی۔
"سینے سے تیرے سر کو
لگا کے
سنتا میں رہوں نام اپنا"
احد کو ایسا محسوس ہوا جیسے موجود نا ہونے پر بھی کسی نے اسکے سینے پہ اپنا لمس چھوڑا ہے۔
ادھر ادھر دیکھنے کے بعد وہ اٹھا اور خیال سمجھتے کار کی جانب بڑھا۔
"سینے سے ۔۔ تیرے سر کو
لگا کے
سنتی ۔۔۔ میں ۔۔۔ رہوں ۔۔۔ نام ۔۔۔ اپنا"
کار کے قریب پہنچتے احد کی سماعتوں سے ایک باریک نسوانی آواز ٹکڑائی جس پہ وہ سرعت سے پلٹا'شام ڈھل کر گہری تاریک رات میں بدل چکی تھی۔
ایک ادھورا چاند جو سیاہ بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا' ڈرا ڈرا ۔۔ سہما سہما معلوم ہو رہا تھا۔
اپنی راہ میں رکاوٹ تمام خشک پتوں کو پیروں تلے روندتے وہ ان پہ چلتی آ رہی تھی' بے نام وجود کی مہیب سرسراہٹ۔
احد کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔
"کون ہے وہاں؟؟"۔ خوف کے شکنجے میں اسنے بمشکل تھوک نگلا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پرانے طرز کی قدیم حویلی جسکے احاطے میں لوہے کا دروازہ لگا تھا جو پرانا ہونے کے باوجود صحیح حالت برقرار رکھے ہوئے تھا مگر رات کی سیاہی میں خاموشی کے باعث چلاہٹ کے ساتھ کھلتا تھا۔
انٹرنس تک پہنچنے کیلئے پتھروں سے بنی گزرگاہ پہ خاصی مسافت طے کرنا پڑتی تھی' راہداری کے دونوں طرفیں ہلکی ہلکی گھاس سمیٹے مستطیل لان تھے جہاں بائیں جانب چھت کے نیچے کھلا جم نما روم تھا اور دائیں طرف پورچ کے ساتھ لان میں صوفے والا جھولہ اور بیٹھنے کی غرض سے چیئر ٹیبل لگے تھے۔
ایک واچ مین جو ہما وقت گیٹ پہ موجود رہتا کار کی آواز پہ اٹھ کر گیٹ کی جانب بڑھا اور گیٹ کھول کر سائیڈ پہ کھڑا ہوا تب کار حویلی میں داخل ہوتی پورچ میں کھڑی ہوئی۔
کار سے نکلتے اسنے کار لاک کی پھر واچ مین کے نزدیک آیا۔
"پاپا آ گئے؟؟"۔
"جی صاحب"۔ واچ مین نے دو حرفی کہا۔
حویلی کی ایک بتی جو نجانے کب سے اپنی خدمات سر انجام دے رہی تھی' اب مدھم ہو گئی تھی۔
انٹرنس کے خارج پہ سیڑھیاں تھیں جو شمار میں پانچ تھیں۔۔۔ دروازہ جو اسکی قامت سے کئی گنا بڑا تھا' کھولتے ہی اسکے قدم تھمے۔
اندھیرے کا جال آنکھوں کے سامنے بچھا دیکھ وہ دنگ رہ گیا۔
"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے ڈیئر احد ہیپی برتھ ڈے ٹو یو"۔ چند ہی لمحوں میں اندھیرے کی جگہ لائٹوں نے لے لی تھی۔۔ پارٹی بلاسٹ پھٹنے کے بعد احد پر رنگا رنگ کلیاں بکھیرنے لگا تھا۔
احد کی فیملی کے ساتھ ساتھ وہاں احد کے قریبی دوست، مشائم کی فیملی اور چند رشتے دار ہجوم میں کھڑے' تالیاں بجاتے گلا پھاڑ کر احد کو مبارک باد دے رہے تھےجس پہ دل موہ لینے والی مسکراہٹ نے احد کے لبوں کا احاطہ کیا۔
"ہیپی برتھ ڈے احد"۔ من پسند چہرہ ہجوم سے نکلتا احد کے مقابل آ کھڑا ہوا۔
"مشی یہ سب؟"۔ خوشی کی زیادتی پہ اب احد کی بتیسی نمایاں ہوئی۔
"صرف مشائم ہی نہیں یہ میرا بھی پلین تھا اور مشی کے ساتھ ساتھ اسکا کریڈٹ مجھے بھی جاتا ہے دوست"۔ دائیں جانب سے حمزہ چلتا مشائم کے برابر آ کھڑا ہوا۔
"اور اسکے لیئے تم نے مجھے میسج کرکے ملنے کا جھوٹ بولا؟"۔ مشائم کی طرف دیکھتے احد نے کہا جس پہ مشائم نے تائید سے "ہاں" میں سر کو جنبش دی۔
"چلو بھئی کیک کاٹنا ہے گپ شپ بعد میں کر لینا"۔ شہریار جو احد کا بڑا بھائی تھا' نے آواز بلند کرتے کہا۔
"آ رہے ہیں بھائی"۔ احد نے قدم اٹھائے۔
"احد جب یہاں سے فارغ ہو جاو تو روم میں جا کر دیکھ لینا تمھارے لیئے ایک اور سرپرائز ہے"۔ احد کا دائیاں ہاتھ پکڑتے مشائم نے اسے روکا جس پہ احد کی نظر مشائم کے ہاتھ پر گئی جہاں بینڈیج لگی تھی۔
"مشائم یہ کیا ہوا؟؟"۔ احد نے بے قراری سے کہا۔
"کچھ نہیں وہ فروٹ کاٹتے کٹ لگ گیا"۔
"دھیان سے کام کیا کرو مشی پلیز"۔ مشائم کا چہرہ ہاتھوں کی اوک میں لیتے احد نے سختی سے تاکید کی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مشائم احد کے والد سمعان احمد کے دوست عامر احسان کی بیٹی تھی جنکا رشتہ بچپن سے ہی طے تھا۔ موسیقی میں رحجان کے سبب احد نے موسیقی کو دل و جان سے قبول کرتے ایک گلوکار کی حیثیت سے فرائض انجام دینا شروع کیئے اور گھر والوں نے اسکے شوق کو سراہتے احد کی حوصلہ افزائی کی۔ اسکے برعکس پڑھائی میں رحجان کے باعث مشائم نے پڑھائی کا سلسلہ رواں رکھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پارٹی سے فارغ ہوتے ہی پہلی فرصت میں وہ اپنے روم میں آ گیا تھا۔۔ کچھ نا کرتے ہوئے بھی اسکا بدن ہلکے سے درد میں مبتلا تھا' روم میں داخل ہوتے ہی سامنے بیڈ تھا جسکی پائینتی بائیں جانب تھی، پائینتی سے تھوڑا فاصلے پہ کاوچ رکھا تھا جسکی پشت پہ دیوار میں کھڑکی لگی تھی جو اس وقت کھلی تھی ہلکی ہوا کے باعث کھڑکی کے سامنے لگے پردے پھڑپھڑا رہے تھے۔۔ کاوچ پہ ایک گیٹار رکھا تھا جو ظاہری حلیے سے ہی نیو لگ رہا تھا۔ احد نے اسے اٹھا کر دیکھا تو سائیڈ پہ اے- ایس کندہ تھا۔۔۔ گیٹار کو جگہ پہ رکھتے احد واش روم کی جانب بڑھا جو بیڈ کے برابر فاصلے پہ بنا تھا' ساتھ ہی ڈریسنگ روم منسلک تھا۔
پینٹ شرٹ کو ٹی شرٹ اور ٹراؤزر سے تبدیل کرتے وہ منہ دھونے کی غرض سے بیسن کی طرف آیا جہاں مقابل دیوار پہ لگے شیشے پہ خون سے "ایچ بی ڈی میری جان" لکھا تھا۔
"بالکل پاگل ہے مشی"۔
احد پہلے حیران ہوا پھر مشائم کا خیال آتے ہی کوفت آمیز انداز میں کہا۔
بیسن پہ جھکتے احد نے منہ پہ چھینٹے مارے پھر سائیڈ پہ ٹنگا ٹاول اتارا جس سے ایک گلاب احد کے قدموں میں آ گرا۔
منہ صاف کرتے اسنے ٹاول جگہ پہ لٹکا دیا پھر جھک کر گلاب اٹھایا' گلاب کا لال گلال رنگ احد کی آنکھوں میں چبھا۔۔۔ پل پل احد کا ذہن مشائم کی جانب دوڑ جاتا۔ جونہی اسنے گلاب کی پتی پہ لب رکھے گلاب کی سحر آفرینی خوشبو ہوا کی لہروں سے اٹکیلیاں کرتی احد کے نتھنوں میں آ سمائی۔
کچھ ہی لمحوں میں واش روم کا ماحول اس سحر زدہ گلاب کی خوشبو سے معطر ہو گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احد واش روم سے نکلتے بیڈ کی جانب آیا' سائیڈ ٹیبل پہ رکھے فون کی چنگاڑتی رنگ ٹون خاموشی میں مخل ہوئی تب احد نے فون اٹھایا جہاں سکرین پہ مشائم کا نمبر دمک رہا تھا۔
"اسلام و علیکم"۔ کال ریسیو ہوتے ہی مشائم نے پرتپاک انداز میں کہا۔
"و علیکم اسلام مشی گھر پہنچ گئی؟"۔ گرچہ مشائم کا گھر زیادہ دور نہیں تھا' احد نے یونہی پوچھ لیا۔
"ہاں پہنچ گئی تم بتاو کیسا لگا میرا سرپرائز؟"۔ مشائم نے دل آویزی سے کہا۔
"کافی عجیب سرپرائز ہے مشائم، آج ایسا کیا ہے خدا کا واسطہ ہے نیکسٹ ٹائم ایسا نا کرنا"۔ التجا کرتے وہ بیڈ پہ بیٹھ گیا تھا۔
"تمھیں میرا سرپرائز پسند نہیں آیا؟؟"۔ مشائم کو عجیب لگا تھا۔
"مشائم یار تم اچھے سے جانتی ہو کہ میرے دل میں تمھارے لیئے کونسے جذبات ہیں۔۔ میں نہیں چاہتا کہ تمھیں میری وجہ سے کسی قسم کی تکلیف اٹھانی پڑے یا تم کوئی اذیت اٹھاو' بس آج ایسا کر دیا ہے آئیندہ خیال رکھنا"۔ احد نے بے زارگی سے کہا جبی گلاب کی خوشبو دوبارہ سے احد کے نتھنوں کے پاس آ رکی۔
"میں خود کو اذیت کیوں دوں گی احد؟؟ تمھارا برتھ ڈے تھا مجھے تمھارے لیئے ایک گفٹ خریدنا تھا سوچا ایک راکسٹار کیلیئے گیٹار سے اچھا تحفہ ہو ہی نہیں سکتا تو میں نے وہ خرید لیا۔ تم بول رہے ہو کہ آئیندہ میں ایسا نا کروں، خود کو تکلیف نا دوں۔ کیسی تکلیف یار؟؟اس میں برائی کیا ہے؟"۔ مشائم متحیر ہوئی۔
مشائم کی تفصیل اور ناراضگی پہ احد بیڈ سے اٹھتے کاوچ کی طرف آیا اور گیٹار کو ایک نظر دیکھتے واش روم کی جانب بڑھا۔ واش روم کے دروازے پہ ہی اسکے قدم اور آنکھیں یکدم ساکت ہوئیں۔
"احد کیا ہوا؟؟ چپ کیوں کر گئے؟؟"۔ دوسری جانب مشائم کی آواز مستقل آ رہی تھی۔